Quick Summary

حاصل زیست مطلب کل عمر کی کمائی، یہ کہانی وجیہہ محمود کی پہلی کہانی ہے اور حیران کن طور پر اس کہانی کی بنائی ہرگز کسی نولکھاری کی سی معلوم نہیں ہوتی۔ منظر نگاری سے لے کر کرداروں کی شخصیت تک سب چیزیں بہت بہترین انداز میں رقم کی گئی ہیں۔ اس کہانی میں میرا سب سے پسندیدہ کردار آبرو کا اور تاشفین کا تھا، اپنی زندگی کے اتنے کٹھن مرحلوں سے گزرنے کے باوجود بھی انہوں نے تلخی کو اپنے اندر سمونے کی اجازت نہیں دی۔ رشتوں سے دھوکہ کھانے کے باوجود بھی انہوں نے رشتوں کے تقدس اور ان کی خوبصورتی کو برقرار رکھا۔ رتبہ ، اصباح، فائق ،زاویار اور نور فجر کے کردار بھی قابل ستائش ہیں جن کے بغیر یہ کہانی اتنی مکمل نہ ہوتی۔ سبرینہ کا سفر اور اس کا حاصل زیست ہم سب کیلئے اک غور طلب پہلو ہے جس نے اپنے اک غلط فیصلے کو زندگی پر حاوی نہیں ہونے دیا، اپنی غلطی کا اعتراف اور پھر اس پر پشیمانی نے اسے دوبارہ کھڑے ہونے میں مدد کی۔ اس نے دل میں مایوسی کو بسنے نہ دیا اور حالات کو بدلنے کی ٹھانی تو قسمت بھی اس کا ہاتھ تھامتی چلی گئی۔ یہ کہانی مختلف کرداروں کے گرد گھومتی ہے اور تجسس اختتام تک برقرار رہتا ہے۔

وجیہہ محمود

اسلام و علیکم!میرا نام وجیہہ محمود ہے اور میرا تعلق روشنیوں کے شہر کراچی سے ہے۔میرا بچپن سے ہی مطالعہ سے ایک گہرا تعلق رہا ہے۔پہلے پہل کتابیں پڑھنا محض ایک شوق تھا مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ میرے لیے صرف وقت گزارنے کا ذریعہ یا شوق نہیں رہا بلکہ یہ میری سوچ،احساسات اور مشاہدات کی تشکیل کا سبب بن گیا۔ لفظوں کی دنیا میں قدم رکھتے ہی میں نے انسان، سماج اور زندگی کے مختلف رنگوں کو قریب سے دیکھنا سیکھا اور اپنے اردگرد بکھری ہوئی کہانیوں کو محسوس کرنا شروع کیا۔
اردو زبان سے میری دل چسپی محض ایک زبان کی تک محدود نہیں بلکہ یہ میری تہذیب، میرے جذبات اور میرے اظہار کا سب سے معتبر ذریعہ ہے۔ اس کی نرمی، گہرائی اور وسعت نے مجھے ہمیشہ اپنی طرف کھینچا ہے۔بلاشبہ اردو میری پسندیدہ زبانوں میں سے ایک ہے!
میرا پہلا ناول “حاصلِ زیست” دراصل زندگی کے انہی تجربات، تلخیوں اور سچائیوں کا عکس ہے جن کا سامنا ہمارا معاشرہ ہر روز کرتا ہے۔یہ تصنیف میرے دل کے بےحد قریب ہے اور تاحیات رہے گی کیونکہ یہ میرے قلم سے لکھی گئی پہلی تحریر ہے۔یہ کہانی معاشرتی ناہمواریاں، انسان کی خاموش تکالیف اور زندگی کی مسلسل کشمکش جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔
“حاصلِ زیست” میرے لیے محض ایک ادبی تخلیق نہیں بلکہ زندگی کے مشاہدے کا نچوڑ ہے،ایک ایسی کوشش جس میں میں نے اپنے احساسات کو الفاظ کا روپ دے کر قاری تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔مجھے یقین ہے کہ ادب کا اصل مقصد سماج کے آئینے میں سچ کو دکھانا ہے اور یہی یقین میری تحریر کی بنیاد ہے۔میری تحریر کے بہت سے پہلوؤں سے آپ اختلاف بھی کر سکتے ہیں جو بحیثیت قاری آپکا حق ہے اور بحیثیت لکھاری آپکی قیمتی رائے جاننا میرا حق ہے اور میری پوری امید کرتی ہوں کہ آپ مجھے میرے حق سے محروم نہیں کریں گے!
شکریہ 

scene glimpse

“آفاق آپ کا کچھ میٹھا اور ٹھنڈا کھانے کا دل نہیں چاہ رہا۔۔۔” 

اس کی بات پر آفاق نے اس کی جانب دیکھا کہ نظر سامنے موجود اس دکان پر پڑی ، وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ چکا تھا مگر جان بوجھ کر بولنے لگا۔

“نہیں۔۔۔”

اصباح نے گردن موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔

“مگر میرا دل چاہ رہا ہے اور مجھے آئس کریم کھانی ہے پلیز۔۔۔”

اس کے لہجے میں حکم، گزارش خواہش سب کچھ تھا اور انکار کرنا آفاق کیلئے ممکن نہیں تھا۔

Post Views: 156