Quick Summary

یہ ام ملائکہ کی پہلی تحریر ہے جس کے زریعے میرا ان سے تعارف ہوا۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ بہت عرصے بعد اس قدر خوبصورت اور الفاظ کی گہرائی والی کہانی پڑھنے کو ملی۔ اس کہانی کی گہرائی اور اس کی انفرادیت نے مجھے اس کہانی کو اور ام ملا‏کہ کی دیگر کہانیوں کو پڑھنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ کہانی ہمارے معاشرے کی اس برائی کی نشاندہی کرتی ہے جس کا ذکر شاید ہی ہم نے کبھی سنا ہو۔ یہ کہانی عام انسانوں سے مختلف سوچ رکھنے والے لوگوں کی ہے۔۔۔ مجھے ہرگز یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگی کہ دیگر مسائل کی طرح یہ بات بھی آپ کی توجہ کی حامل ہے۔ یہ کہانی اک ایسی لڑکی کی ہے جسے شادی سے خوف آتا ہے ، جو ذہنی طور پر اس رشتے کیلئے تیار نہیں ہوتی۔ جس کے نزدیک محبت جسمانی قربتوں سے دور احساس، قدر روانی، ذہنی ہم آہنگی اور مسکراہٹوں سے بھرپور کسی بھی غرض سے پاک اک جذبہ ہے۔ دوسری جانب اک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو قریبا چند ماہ میں ہی اپنی بیوی کو اک حادثے میں کھو دیتا ہے۔

ملائکہ خلیل

میرا نام ملائکہ خلیل ہے، اور میرا قلمی نام اُمِّ ملائکہ ہے۔ میں نے گیارہ سال کی عمر میں لکھنے کا سفر شروع کیا، جب میں اپنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے ذریعے جذبات اور خیالات کو لفظوں میں سمونا سیکھ رہی تھی۔ بچپن سے ہی لکھنا میرے لیے ایک مشغلہ نہیں، بلکہ اللہ کی دی ہوئی ایک کیفیت تھی—ایسی کیفیت جو مجھے خاموشی میں بھی بولنا سکھاتی ہے۔
وقت کے ساتھ یہ شوق پختہ ہوا، اور انیس سال کی عمر میں، 2025 میں، میں نے اپنا پہلا مکمل ناول    “آؤ چاند دیکھیں” تحریر کیا—ایک ایسا ناول جس نے مجھے پہلی بار یہ احساس دلایا کہ لفظ صرف کہانیاں نہیں سناتے، بلکہ دلوں تک راستہ بھی بناتے ہیں۔
اس کے بعد میرے قلم نے دو مزید ناولوں کو جنم دیا
 “بارش”
 “تنہائی کا آشیانہ”
یہ دونوں کہانیاں میری حساس طبیعت، مشاہدے اور زندگی کے تجربات کا عکس ہیں۔
مجھے لکھنا اس لیے پسند ہے کہ میں چاہتی ہوں اپنا نقطۂ نظر، اپنے احساسات اور اپنے مشاہدات دوسروں تک پہنچاؤں۔ میں لکھتی ہوں تاکہ لوگ میری تحریروں سے کچھ سیکھیں، اور میں خود بھی ہر کردار، ہر منظر اور ہر خیال سے کچھ نیا سیکھ سکوں۔ میرے لیے لکھنا ایک سفر ہے—اپنی ذات تک پہنچنے کا، اور دوسروں کے دلوں تک رسائی کا۔
لفظوں کی دنیا وہ جگہ ہے جہاں میں خود کو سب سے زیادہ مکمل محسوس کرتی ہوں، اور میں چاہتی ہوں کہ میرا قلم اسی طرح محبت، احساس اور سوچ کی روشنی پھیلاتا رہے

scene glimpse

ہاتھ تو پکڑ سکتا ہوں نا۔۔۔؟” اس نے نرمی سے پوچھا۔”

“ہاں۔۔۔جیسے پہلے تو کبھی پکڑا ہی نہیں تم نے۔۔۔”

تمہاری اجازت سے پکڑنا چاہتا ہوں۔۔۔” ہفان نے دھیرے سے کہا۔”

Post Views: 87