Quick Summary

یہ کہانی کسی کو اپنی محبت سے بدل دینے کی ہے۔۔۔وہاں جہاں ہمسفر ساتھ چلنے کو روادار نہیں ۔۔۔وہاں جہاں آخری خواہش بھی رد ہوتی محسوس ہورہی ہے۔۔طاقت۔۔۔حق۔۔۔جذبات رکھنے کے باوجود بھی سامنے والے کو آزاد کردینے کی یوں کہ اپنی کل کائنات محض محبوب کی انا کی سلامتی کیلئے وار دی جائے ۔۔۔محبت اور انا کی ایسی جنگ جہاں نفرت کا کوئی ذکر نہیں ۔۔۔وہاں جہاں بے رخی و بے اعتنائی کے سبب دل کے زنگ آلود دروازے پر محبت کی مسلسل دستک بھی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔۔یہ کہانی صحیح غلط کے فرق سے کہیں پرے جذبات اور احساس کی ہے۔۔کچھ پاکر کھو دینے تو کھو کر پادینے کی۔۔۔

عزہ اقبال

میرا نام عزہ اقبال ہے اور میرا تعلق شہر لاہور سے ہے وہاں جہاں لاتعداد کہانیاں سانس لیتی ہیں ، میں یہ تو نہیں کہوں گی ادب سے میرا تعلق بچپن سے رہا ہے ہاں مگر مجھے بچپن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال پڑھنا اور پھر لکھنا ، ڈائری لکھنا ، اور جرنلنگ کا خاصا شوق تھا یہاں تک کہ سکول و کالج کی دیواروں پر لکھے گئے جو اقوالِ زریں اچھے لگتے میں انہیں جرنل پر لکھ لیتی ۔ کہانیاں لکھنے کی شروعات کرنے سے پہلے مجھے حالاتِ حاضرہ پر لکھنے کا خاصا شوق تھا اور پھر وہیں سے یہ خیال آیا کہ کیوں ناں یوں ادھوری بکھری باتوں کو سمیٹ کر اک کہانی کی صورت دی جائے اور پھر 2017 میں میں نے پہلی کہانی “عہد وفا” کے نام سے لکھی تھی ۔ میرےلکھنے کا مقصد معاشرے کو اک نئی سوچ دینا ہے، ہمارے اردگرد پنپتی تلخ حقیقتوں کی عکس بندی کرنا اور اس تنقیدی معاشرے میں نظر انداز ہوجانے والے خوبصورت احساس سے بھرپور پہلوؤں کو قارئین کی نظر میں لانا تھا اور پھر دور حاضر میں جب بہت سے لوگوں کو یہ شکوہ کرتے سنا کہ اب لکھائی کہ میدان میں فحش ناولز کی بھرمار ہے تو میرے قلم کو اک اور مقصد مل گیا اور وہ یہ کہ اچھی لکھائی کو اتنا عام کردیا جائے جہاں فحش لکھنے والے خودبخود پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائیں ۔۔۔ ناولز کو بنا معاوضے کے پبلش کروانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہر قاری کو ان تک اس قدر رسائی ہو اور ان کے پاس پڑھنے والے مواد کی فہرست اچھی اور طویل ہو کہ ان کا دھیان کبھی فحش ناولز کی جانب جا ہی نہ پائے۔۔۔

Once Haarib Hamdani Said

“At least the walk was worth the blisters”

Post Views: 760